غزہ،30؍ اکتوبر (آئی این ایس انڈیا؍ایس او نیوز)غزہ میں قائم فلسطینی سنٹر فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے تینوں نوجوان سرحدی باڑ کی دوسری طرف جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے اور اسرائیل کی طرف سے اس پر ان نوجوانوں کو ڈرون حملے کا نشانہ بنانا ’طاقت کا ضرورت سے زائد‘ استعمال ہے۔رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے دو فلسطینی نوجوان محض 13 جبکہ تیسرا 14 برس کا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ نوجوانوں سرحدی باڑ کو نقصان پہنچانے اور اس کے قریب دھماکا خیز مواد نصب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فلسطینی سنٹر فار ہیومن رائٹس کے مطابق جس طبی عملے نے ان کی لاشیں نکالیں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان بچوں کے پاس کوئی دھماکا خیز مواد نہیں ملا۔اتوار 28 اکتوبر کو اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے ان تینوں نو عمر فلسطینیوں کو آج پیر کے روز سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ ان نوجوانوں کے جنازے میں ہزارہا فلسطینیوں نے شرکت کی۔ غزہ سٹی میں ان کی آخری رسومات کے موقع پر فلسطینی مظاہرین میں غم و غصہ نمایاں تھا اور وہ اسرائیل کے خلاف نعرے بھی لگا رہے تھے۔ان تینوں نوجوانوں کے خاندان کی طرف سے بھی اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ یہ کسی قسم کی عسکریت پسندی میں ملوث تھے۔ ان میں سے ایک بچے 13 سالہ محمد الستاری کے والد ابراہیم الستاری کہنا تھا، ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کس قدر سفاک ہے اور اس فوج کی کوئی اخلاقیات نہیں۔‘‘محمد الستاری کے ساتھ ایک اور 13 سالہ لڑکا عبدالحمید ابو ظاہر اور 14 سالہ خالد ابو سعید اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے۔